جمعہ کی نماز میں رکعات کی تعداد کیا ہے؟ جمعہ کی سنن کتنی ہیں اور جمعہ نماز کےنیت کیساہے؟

سوال

جمعہ کی نماز میں کتنی رکعتیں فرض ہیں؟ اور کتنی سنت اور کتنی نفل ہیں؟ صحیح بات بتلا دیں، کیوں کہ ہر جگہ سے الگ الگ بات سننے کو مل رہی ہے۔

 

 

جواب

 

جمعہ کی نماز میں کل بارہ رکعتیں ہیں۔ چار سنت مؤکدہ فرض سے پہلے، دو رکعت فرض، چار رکعت سنت مؤکدہ فرض کے بعد اور  اس کے بعد مزید دو رکعت (بنا بر قولِ راجح)  سنت غیر مؤکدہ۔(4+2+4+2 = 12 )۔باقی احادیث میں جمعہ کے بعد نفل کی کوئی متعینہ مقدار مذکور نہیں ہے، اس لیے  جمعہ کے ساتھ نفل کا نہ کوئی اختصاص ہے اور نہ نفل کی کوئی تحدید ہے، آدمی کی مرضی ہے جتنی چاہے پڑھے۔

 

''فتاویٰ رحیمیہ'' میں ہے:

 

1) نیت زبان سے کرنا ضروری نہیں، اگر کوئی شخص دل میں جمعہ پڑھنے کا ارادہ کرلے تب بھی نماز ہوجائے گی لیکن اگر کوئی زبان سے کرنا چاہے تو اس طرح کہے *میں جمعہ کی دو رکعت فرض کی نیت کرتا ہوں واسطے اللہ تعالی کے پیچھے اس امام کے رخ میرا کعبہ شریف کی طرف اللہ اکبر* .

 

(2) جمعہ کی نماز سے پہلے چار رکعت سنت مؤکدہ ہیں اور جمعہ کی نماز کے بعد چار رکعت سنت مؤکدہ اور بعض کے نزدیک اس کے بعد بھی دو رکعت سنت مؤکدہ ہیں اس طرح کل بارہ رکعتیں ہو گئیں۔ وسن مؤکدا․․․ أربع قبل الجمعة و أربع بعدها (الدرالمختار مع الشامی: 2/451، ط زکریا دیوبند) اور دوسری جگہ ہے۔ و یستن بعدھا أربعا أو ستا علی الخلاف أي أربعا عندہ وستا عندھما (الدرالمختار مع الشامی: 2/436، ط )

 

(3) سنتوں میں مطلق سنت کی نیت کرنی چاہئے ظہر یا جمعہ کی نیت کرنے کی ضرورت نہیں، وکفی مطلق نیة الصلاة لنفل و سنة (تنویر الابصار مع الشامی: 2/94، ط 

 

واضح رہے کہ جمعہ میں کل بارہ رکعتوں کا ثبوت ملتا ہے، جمعہ کے خطبہ سے پہلے چار رکعت سنتِ  مؤکدہ، خطبہ کے بعد جمعہ کی دو رکعت فرض، پھر جمعہ کی دو رکعت فرض کی ادائیگی کے بعد چھ رکعت (چار رکعت ایک سلام کے ساتھ، اور دو رکعت ایک سلام کے ساتھ) سنت ہیں، البتہ چار رکعت سنتِ مؤکدہ اور دو رکعت سنتِ زائدہ ہیں، پڑھنے کی ترتیب یہ ہے کہ پہلے چار رکعت سنت پڑھنی ہیں، پھر دو رکعت، ان کا ثبوت احادیثِ نبویہ اور صحابۂ کرام کے عمل سے ثابت ہے، نوافل جتنا پڑھنا چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔

 

معجم الکبیر للطبرانی میں ہے:

 

"عن ابن عباس – رضي الله عنه- قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يركع قبل الجمعة أربعًا، وبعدها أربعًا، لايفصل بينهن". (باب ما جاء في الصلوة قبل الجمعة، ص: 117، ط: قديمي)

 

ترمذی شریف میں ہے:

 

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من كان منكم مصليا بعد الجمعة فليصل أربعًا". (باب ما جاء في الصلوة قبل الجمعة ص: 117، قديمي)

 

فتاویٰ شامی میں ہے:

 

"(هي فرض) عين (يكفر جاحدها) لثبوتها بالدليل القطعي كما حققه الكمال، وهي فرض مستقل آكد من الظهر، ولیست بدلاً عنه. (قوله بالدليل القطعي) وهو قوله تعالى - ﴿يا أيها الذين اٰمنوا إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة فاسعوا﴾ (الجمعة: 9) الآية- وبالسنة والإجماع". (باب الجمعة، 2/136، ط: دارالفكر بيروت)

 

وفيه أيضًا:

 

"و(سن) مؤكداً (أربع قبل الظهر و) أربع قبل (الجمعة و) أربع (بعدها بتسليمة)". (باب الوتر والنوافل، 2/12، مطلب فی السنن والنوافل، ط: سعید کراچی)

 

حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی میں ہے:

 

"منها أربع «قبل الجمعة»؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم كان يركع قبل الجمعة أربعًا لايفصل في شيء منهن، «و» منها أربع «بعدها»؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي بعد الجمعة أربع ركعات يسلم في آخرهن؛ فلذا قيدنا به في الرباعيات فقلنا: «بتسليمة» لتعلقه بقوله: وأربع، وقال الزيلعي: حتى لو صلاها بتسليمتين لايعتد بها". (حاشية الطحطاوي على المراقي، ص: 389، دار الکتب العلمیة بیروت)

 

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

 

"سن قبل الفجر وبعد الظهر والمغرب والعشاء ركعتان وقبل الظهر والجمعة وبعدها أربع. كذا في المتون والأربع بتسليمة واحدةعندنا حتى لو صلاها بتسليمتين لايعتد به عن السنة". (كتاب الصلوة، الباب التاسع في النوافل 1/12، ط: ماجديه کوئٹہ)

 

عمدۃ الفقہ میں ہے:

 

’’جمعہ کے وقت فرض سے پہلے چار رکعتیں ایک سلام سے سنتِ مؤکدہ ہیں اور فرض کے بعد بھی چار رکعتیں ایک سلام سے سنتِ مؤکدہ ہیں (یہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک ہے اور امام ابویوسف کے نزدیک جمعہ کے بعد چھ رکعتیں سنتِ مؤکدہ ہیں، پہلے چار ایک سلام سے پھر دو رکعت ایک سلام سے دونوں طرف صحیح حدیثیں موجود ہیں، افضل یہ ہے کہ جمعہ کے بعد پہلے چار پڑھے، پھر دو؛  تاکہ دونوں حدیثوں پر عمل ہوجائے‘‘۔ (فصل، سنت اور نفل نمازوں کا بیان 2/ 297، ط: ادارہ امجدیہ ناظم آباد کراچی)

واللہ اعلم  طالب دعا خادم علی گجر 


Khadam Ali

63 Articles posts

Comments